۱۳۹۰ شهریور ۲۴, پنجشنبه

Aqeedah hayat al-Anbiya (a.s) Quran e hakeem mein عقیدہ حیات الانبیاءقران حکیم میں


بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاءکا ثبوت ( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص) ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ واسل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھة یعبدون (پارہ25۔ آیت 45 الزخرف)
ترجمہ: اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھےجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہ ؒصاحب فرماتے ہیں ۔ یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) وھذا فی دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،
۲۔ ولقد اتنیا موسی الکتب فلا تکن فی مریة من لقائہ (پارہ21، آیت 43 الم سجدہ)

ترجمہ: اور دی ہم نے موسی کو کتاب اس کے ملنے میں شک میں نہ رہنا ۔
حضرت شاہ عبد القادر صاحب ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ معراج میں ان سے ملے تھے۔ موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350،تفسیر خازن جلد 3ص479، اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاءکو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصول فقہ کا یہ مسلمہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضا النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد وقوت استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔

 
۳۔ ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون (پارہ۲۔ آیت 154 البقرہ)
اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا و اذا ثبت انہم احیاء من حیث النقل فانہ یقولہمن حیث النظر کون الشہداء احیاء بنص القرآن والانبیاء افضل من الشھداء (فتح الباری جلد 6ص379)
حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں۔ ایک اعرابی حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر پر حاضرا ہوا اور عرض کیا یا رسول اﷲﷺ آپ نے جو پردوردگار سے سنا۔ ہم نے آپ ﷺ سے سن لیا اور جو کچھ آپ ﷺ نے اﷲ سے یادکیا ہم نے آپ ﷺ سے یاد کرلیا۔ آپ ﷺ پر جو آیات نازل ہوئیں۔ ان میں یہ آیت شریفا بھی ہے ولوانہم اذظلموا انفسہم جاوک ............ الخ ) ترجمہ: اور ان لوگوں نے جب اپنے آپ پر ظلم کیا تو اگر آتے آپ ﷺ کے پاس اور اﷲ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے اور رسول ﷺ بھی ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔ تو یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنےو الا اور رحم کرنے والا پاتے۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آواز آئی۔ قد غفرلک اﷲتعالیٰ نے تجھے بخش دیا۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔ حضرت علی ؓ کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسی، البحرالمحیط جلد 1ص283 ، علامہ سمہودی نے وفا الوفا میں خلاصتہ الوفا ص51، او علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر جلد1ص265، میں نقل فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر جلد3ص142، تفسیر مدارک جلد1ص265، میں بھی درج ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی نے اس آیت شریفا کی تفسیر میں جاوک (یعنی اگر گناہگار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوں) کو عام رکھا ہے۔فرماتے ہیں ولو انہم اذ ظلمو انفسہم جاوک ........ الخ کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص ہو تو کیونکر ہو۔ آپ ﷺ کا وجود باجود ترتیب تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔ کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ آپﷺ قبر میں زندہ ہوں۔ (آب حیات ص40)
۵۔ یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فق صوت النبی........ الخ (پارہ26 ۔الحجرة)
اکابرین اہل سنت اور جمہور مفسرین کا اجماع ہے کہ دور وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز کرنا ناجائز نہیں۔ نہ وفات سے پہلے اور نہ ہی وفات کے بعد۔ لا یسنبغی رفع الصوت علی النبی اور حضرت عائشہ صدیقہ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہے خبردار لاتو ذو رسول اﷲﷺ اور حضور اکرم ﷺ کو اس آواز سے اذیت نہ دو۔ اور حضرت علی ؓنے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے۔ یا کہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم ﷺ کو اذیت نہ دے۔ وہذا مما یذل علی انہم کانو یرون انہ حی۔ ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے روضہ انور میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ ( شفاءالسقام ص173)
حیات الانبیاءاحادیث کی روشنی میں
یوں تو اس باب میں کثرت سے احادیث وارد ہیں لیکن صرف تین پر اکتفا کیاگیا ہے۔ امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی ؒ نے وبیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر ؒ نے بیان کیا۔وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعیدؒ نے بیان کیا۔ وہ حجاجؒ سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون۔( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاءللبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب ؒ نے بیان کیا او وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ حضرت ابوالدراد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ قال قلت بعد الموت قل و بعد الموت ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزقفرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔ (ابن ماجہ 119) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔
حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا من صلی عند قبری سمعة ومن صلی علی من بعید اعلمة جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ جلاءالا فہام ۔حافظ ابن القیم ص 25
حدیث کے سلسلے میں محدثین اکرام کی آرا
حافظ ابن حجر حدیث کی سند بطریق ابوالشیخ کے متعلق فرماتے ہیں ۔ بسند جید فتح الباری جلد6ص352۔ علامہ سخاوی فرماتے ہیں وسند جید القول البدیع ص116۔ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں سند جید مرقات جلد2ص10۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی اس کو بسند جید فرماتے ہیں۔ فتح الملھم جلد 1ص330۔ جمعیت اشاعت التوحید کے ماہنامہ رسالہ تعلیم القرآن میں بھی اس حدیث کی ابو الشیخ والی سند کو جید کہا ہے۔ و رواہ ابو الشیخ باسناد جید ماہنامہ تعلیم القران ص47، اکتوبر1967
حضرت ابوہریرة فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشادفر مایا کہ البتہ ضرور حضرت عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ منصف اور امام عادل ہوں گے اور البتہ ضرور وہ فج (ایک جگہ کا نام) کے راستہ پر حج یا عمرہ کےلئے چلیں گے۔ولا یا تین قبری حتی یسلم چلی ولا ردن علیہ اور بلاشبہ وہ میری قبر پر آئیں گے حتی کہ وہ مجھ سے سلام کہیں گے اور بلاشبہ میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ مسند ابی یعلی جلد6 ص101۔ درمنثور جلد2ص245۔ الجامع الصغیر جلد2ص140۔ مسند احمد جلد2ص290۔ مستدرک جلد 2ص595۔ امام حاکم اور علامہ ذہبیؒ ددنوں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ایک روایت میں یوں ہے۔ ثم لئن قام علی قبری فقال یا محمد لا جیبیہ پھر وہ میری قبر پر کھڑے ہوکر فرمائیں گے ۔یا محمدﷺ تو میں ضرور ان کو جواب دوں گا۔ اس کو امام یعلی ؒ روایت کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔ رواہ ابو یعلی ورجالة الصحیح مجمع الزوائد جلد8ص211۔ یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے ۔ یہی مدینہ منورہ والی یا کوئی اعلی علین والی۔ یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر جلیل القدرصحابہ کرام ؓ حاضرہوتے تھے اور صلوة وسلام پڑھتے تھے یہی مدینہ منورہ والی قبر یا کوئی اعلی علیین والی۔ فاعتبر ویا اولی الابصار
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا فرمان ہے۔ بابی انت وامی طبت حیا ومیتا الذی نفسی بیدہ لا یذیقک الله الموتتین ابدا (بخاری شریف جلد1ص517) ترجمہ: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔ آپ ﷺ حیات اور موت دونوں کیفیتوں میں جیسے پاکیزہ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ یاﷲ تعالیٰآپﷺ کو دو موتوں کا ذائقہ کبھی نہ چکھائے گا۔ امام الموتة التی کتب اﷲ علیک فقد متھا۔( بخاری شریف کتاب الجنائز ص146) ترجمہ :جو موت اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کےلئے لکھی تھی وہ آپﷺ پر وراد ہو چکی۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مردا اس کلمہ سے لا یذیقک اﷲ الموتترین ابدا سے یہ تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپﷺ پر قبر میں دوسری موت کا ذائقہ بالکل نہ چکھیں گے۔ دوسر ے عام لوگوں کو قبر میں سوال وجواب کےلئے زندہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان پر دوبارہ وردو موت ہوتاہے آنحضرتﷺ پر یہ دوسری موت کبھی نہیں آئے گی۔ اس ارشاد عالی میں حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد مسئلہ حیات النبی ﷺ ہی کی طرف تھا(مدارج النبوة جلد 2ص890)۔ اسی طرح شیخ الاسلام علامہ عینی ؒ نے عینی شرح بخاری میں جلد 2ص600۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے (فتح الباری جلد7ص42میں)، شیخ الاسلام علامہ نور الحق محدث دہلوی نے( تسیر القاری شرح صحیح البخاری جلد3ص445) اور مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری نے صحیح بخاری کے حاشیہ پر یہی مضمون لکھا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے“ مقام حیات”
حضرت عمر فاروق ؓ جب کسی مہم سے واپس مدینہ منورہ آتے تو سب سے پہلے جو کام آپ ؓ کرتے وہ آنحضرت ﷺ کے حضور میں سلام عرض کرناہوتا تھا اور اس کی آپؓ دوسروی کو تلقین فرماتے۔ (جذب القلوب ص200)
حضرت معاوےہ ؓ نے جب شام واپسی کا ارادہ فرمایا اور حضرت عثمانؓ نے انہیں الوداع کیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے تجویز رکھی کہ آپﷺ بھی ان کے ساتھ شام چلے آئیں۔ وہاں کے لوگ اپنے امراءکے بہت تابع فرمان ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا لا اختار بجوار رسول اﷲ ﷺ سواہ میں حضور اکرم ﷺ کے جوار (ہمسائیگی) پر اور کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ (البداےہ ولنہایہ جلد7ص149،تاریخ ابن خلدون جلد2ص1040)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں من ذار رسول اﷲﷺ کان فی جوار رسول اﷲﷺ جو حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر کے پاس حاضر ہ وہ اس وقت حضور اکرم ﷺ کی ہمسائیگی میں ہوتا ہے۔ زرقانی جلد 8ص304، جذب القلوب ص180)
اگر حضور اکرم ﷺ کی روح اقدس آپﷺ کے جسد اطہر سے مفارق اور بے تعلق ہوتی تو سیدنا علی ؓ اس خصوصیت کے ساتھ قرب روضہ مطہرہ کو ہمسائیگی رسول اﷲﷺ ہرگز قرار نہ دیتے۔ آپؓ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی حضرت عثمان کی طرح حضور اکرم ﷺ کو اپنے روضہ اطہر میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ علما ءاکرام حضرت علی ؓ کے اس عمل علت اس حقیقت کو قرار دیا ۔ اذہو حی فی قبر ےصلی فیہ ( زرقانی جلد 8ص304، شفا السقام ص173)

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر